Saturday 16 February 2013

Right to access the information




اہمیت عامہ کے تمام معاملات سے متعلق معلومات تک رسائی اٹھارویں ترمیم کے تحت اب پاکستانی شہریوں کا بنیادی آئینی حق بن چکا ہے لیکن بہت سے دوسرے حقوق کی طرح عوام کے اس حق پر بھی سیاست ہی ہورہی ہے پاکستان کے عوام کو ان کا یہ حق کیسے ملے گا یہ کوئی نہیں جانتا۔ پارلیمنٹ نے ترمیم میں( انیس اے ) کو متعارف کرا کے تمام شہریوں کو یہ حق دے دیا ہے اور عام معلومات تک رسائی کو ممکن بنا دیا ہے ۔ملک میں شفافیت کو فروغ دینے کےلئے یہ اہم قدم اٹھایا گیا۔
لیکن اس ائینی حق کے باوجود شہریوں کے اس حق کو مجروح کیا جا ریا ہے اور انہیں معلومات تک رسائی نہیں دی جا رہی بلکہ اس کی راہ میں روکاوٹیں حائل کی جا رہی ہیں جو کہ نہایت افسوس ناک اور غیر قانونی عمل ہے ۔ یوٹیوب پر پابندی لگانا بھی اسی امر کی کڑی ہے اور حکومت اس پابندی کو برقرار رکھے ائین کی خلاف ورزی کررہی ہے ۔اس حق کے حصول کےلئے شہریوں کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ عام شہری معلومات تک رسائی کو یقینی بنایا جا سکے۔

Wednesday 13 February 2013

new article


انتہا پسندی بذات خود کوئی سیاسی تصور یا خیال نہیں اگر آپ مجھ سے کسی معاملے پر اختلاف کرتے ہیں اور ہم دونوں کسی خاص نقطے پر پہنچنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو آپ خیال کریں گے کہ کیسا انتہا پسند آدمی ہے کہ میری بات ہی نہیں سمجھتا ۔لیکن درحقیقت اختلاف رائے انتہا پسندی کا پیمانہ نہیں ۔بانو قدسیہ نے اپنی کسی تحریر میں خواتین کے لباس کے حوالے سے انتہا پسندی کی کچھ رخ پیش کئے وہ کہتی ہیں برقعہ پہننے والی خاتون چادر سے نقاب کرنے والی کو بے پردہ کہتی ہے اور چادر سے نقاب کرنے والی دوپٹہ کرنے والی خاتون کو بے حجاب کہتی ہے اور دوپٹہ کرنے والی پتلون پہننے والی کو بے حیا تصور کرتی ہے آج انہی معاملات کو بنیاد بنا کر مذہبی انتہا پسندی اور بنیاد پرستی بڑھ رہی زرا غور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جو بھی ہم سے مختلف ہو وہ ہمیں غلط دکھائی دیتا ہے بقول مشتاق احمد یوسفی جو ہم سے ایک سال چھوٹا ہے وہ لمڈا کہلائے اور جو ایک برس بڑا ہے اس پر بوڑھے کی پھبتی چست کی جائے۔آج ہم خود کی درست اور دوسروں کو غلط قرار دے کر اختلاف رائے کا راستہ روک رہے ہیں اور دلیل کی راہ چھوڑ کر بندوق کے بل بوتے پر قائل کرنا چاہتے ہیں جس سے انتہا پرست نظریات بڑھتے جا رہے ہیں ۔
پاکستان میں سیاسی ضرورتوں کی خاطر مسلم اشرافیہ کی جانب سے مذ ہب کے مبہم تصور پر استوار شناخت کو بنیاد بنا کر مختلف و متنوع ثقافتی پس منظر کی حامل شناختوں کو باہم ملا کر ایک قوم بنانے کی سعی کی جا رہی ہے جس کی پشت پناہی حکمران طبقہ کر رہا ہے ۔مذہبی ملاؤں کی ریاست کو کنٹرول کرنے کی خواہش اور عسکری فیصلہ سازوں کی من مانیوں کے مابین اختلاط کے بطن سے جنم لینے والی عفریت جسے عرف عام طالبان ،ظالمان ، باطلان ،بے ایمان، حیوان کے القابات سے نوازا جاتا ہے وہ اپنے پیش رووں کی خواہشات کی بزور قوت تکمیل میں مصروف عمل ہیں اس لئے مذہبی راسخ العقیدگی بڑھتی جا رہی ہے اور ان فاشٹ تصورات نے پورے ملک کو جہنم زار بنا دیا ہے ۔
آج مذہبی انتہا پسندی کا یہ کاروبار انتہائی دیدہ دلیری سے ہمارے ملک میں چل رہا ہے ۔پولیو کے قطرے پلانے پر قتل کر دینا تو کبھی تعلیم حاصل کرنے والے ملالہ کو اس کا نشانہ بنانا تو کبھی ہزارہ کیمونٹی کے لوگوں کو قتل کر دینا ، کبھی فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ تو کبھی بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں تو کبھی کوہستان میں انسانوں کا قتل عام اس غم و اندہ کی فضا میں سانس لینا محال ہوتا جا رہا ہے ۔
وہ مذہب جو انسانیت ، محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیتا ہے نجانے یہ مذہبی انتہا پسند قوتیں کس مذہب کو بنیاد بنا کر یہ مکروہ دھندہ کر رہی ہیں ۔اور حقیقت تو یہ بھی ہے کہ قومی سلامتی کے تمام تر ادارے ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں ۔ آج ایسی قوتوں کی وجہ سے ہمارا ملک لاقانونیت کا شکار ہے اور لگتا ہے انتہا پسندی کا یہ جن جسے بوتل سے باہر نکالا گیا ہے جس کا پیٹ کئی معصوموں کی جان لے کر بھی نہیں بھرنے والا اور شائد یہ پورے ملک کو ہی نگل کر ہی دم لے گا ۔پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی وبا ستاروں کی پراسرار حرکت ، کائناتی لہروں یا دیگر غیر مرئی ذرائع سے نہیں پھیلی ۔بلکہ ایک منظم سازش کے تحت ہمارے اپنے ہی جرنیلوں نے اسے دوام بخشی ۔
ضیاء دور میں لگنے والا یہ پودا آج ایک تناور درخت کی صورت اختیار کر چکا ہے اور اسکی آبیاری کرنے میں تمام ریاستی اداروں نے بھر پور کردار ادا کیا ہے ۔مذہبی انتہا پسندی جو ایک عرصہ سے حکومت کی ناک کے نیچے پھل پھول رہی ہے آج اس کے شعلوں نے حکومتی خرمن ہی خاکستر کرنا شروع کر دیا ہے ۔جو زہریلے افعی ہم نے پالے تھے اب ان کا زہر ملک کے فکری جسد کو زہر آلودہ کر رہا ہے
اور اس کش مکش میں ملکی ترقی تو متاثر ہوئی ہے ساتھ ساتھ عام شہریوں کا جینا دو بھر ہوگیا ہے حکومت کی طرف سے بیانات کی حد تک تو غیض و غضب خوب نظر آتا ہے لیکن عملا ان انتہا پسندوں کے سامنے یہ غصہ جھاگ بن جاتا ہے ۔مذہبی انتہا پسندی کی جنگ درحقیقت پاکستان کی بقاء کی جنگ ہے جسے پاکستان کو ہر صورت جیتنا ہے کوئی درمیانی راستہ نہ ہے یہ جنگ ہارنے کا مطلب ہے ان انتہا پسندوں کیلئے ایک محفوظ جنت تیار کرنا اور پاکستان کو ان کی آماجگاہ بنانا جہاں آئین و قانون کی کوئی گنجائش نہ ہو اور افراد کا قتل عام کیا جائے ،کاروباری طبقہ کی سرمایہ کاری بند ہوسکے اور بین الااقوامی طور پر ہمارے ملک پاکستان کا نام دہشت کی علامت سمجھا جائے ۔اس آتش بار صورتحال میں عام شہریوں کا خون تو نت بہایا جاتا ہے اب تو ہمارے سیاسی قائدین بھی اس سے محفوظ نہیں گذ شتہ دنوں معروف سیاسی رہنما بشیر بلور بھی اس کی نذر ہوئے ہیں ۔پاکستان کی معاشی شہ رگ (کراچی) کٹتی جا رہی ہے جس کے بناء سانس لینا محال ہے۔اور شیعہ بھائیوں کی خونریزی تعصب کی شدت کو بڑھا رہی ہے ۔اور اس سب پر ہماری خاموشی بھی زہر ناک بے حسی کے مترادف ہے اور آستین میں سانپ پالنے کے برابر ہے
آج ان انتہا پسندوں کے ہاتھ ہر طبقہ فکر کے معصوموں کے خون سے رنگے ہیں اور پاکستانی سماج پر ان انتہاپسندوں کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے ۔آج پاکستان اس انتہا پسندی سے لہولہان ، اشکبار و سوگوار ہے اور ہر طرف انتشار پھیل رہا ہے ۔ محبت ،امن اور بھائی چارے کا دیا بجھتا دکھائی دیتا ہے ۔انتہا پسندی کا ناسور تمام جسم میں سریت کر رہا ہے اگر اس کا بر وقت علاج نہ کیا گیا تو پاکستان معذور ہو سکتا ہے ۔ آج ہمارا معاشر ہ مجموعی طور پر برداشت سے محروم ہوتا جا رہا ہے ہم اختلاف کی خوبصورتی کو سمجھے بغیر ،افہا م و تفہیم سے کام لئے بغیر محض گولی کے بل بوتے پر اختلافات ختم کرنا چاہتے ہیں جس سے انتہا پسند نظریات جنم لے رہے ہیں اور لیتے رہیں گے ۔ہم اپنے پوائنٹ آف ریفرنس پر کھڑے ہوکر دیگر پوائنٹ آف ریفرنسز کو غلط قرار نہیں دے سکتے ۔عجلت پسندی سے کام لینا درست عمل نہیں ہمیں اپنے رویوں کی اصلاح کرنی ہوگی اور قوت برداشت کو تقویت دینا ہوگی ،تضادات اور تنوع کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا ۔خواجہ غلام فرید نے کیا خوب کہا تھا ۔
پیلوں پکیا نی پکیا نی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آچنوں رل یار
کئی بگڑیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کئی ساویاں ،پیلیاں
کئی بھوریاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کئی پھکڑیاں نیلیاں
کئی اودیاں گلنار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کٹویاں رتیاں نی وے
آج اگر تمام سیاسی جماعتیں اور دیگر طبقات انتہا پسندی کو ختم کرنے کیلئے سر جوڑ کر نہ بیٹھی تو پاکستان کا وجود شدید خطرات سے دوچار ہو گا۔ یہ جنگ جو ہم پر مسلط کی گئی ہے صرف اسی صورت جیتی جا سکتی ہے جب پاکستانی ذہن تمام تر التباسات سے آزاد ہو کر پوری یک جوئی کے ساتھ اس میں شریک معرکہ ہوں اور بے حسی چھوڑ کر ایک فعال کردار ادا کریں ۔اور انتہا پسندی کے اس خوف سے چھٹکارے کا یہی واحد راستہ ہے ۔ہمیں اس خوف کو چیلنج کرنا ہے

Tuesday 5 February 2013

Safer Internet Day (SID)



Safer Internet Day (SID) is organized in February of each year to promote safer and more responsible use of online technology and mobile phones, especially amongst children and young people across the world. Today is Safer Internet Day! When you post online, you post to the world. What can we all do to be more responsible digital citizens and surf the internet more safely?  We'll be posting some of our own guidelines in the comments - but we want to hear YOUR thoughts.  The theme for the day is 'Online rights and responsibilities', when we will encourage users to 'Connect with respect'.

Monday 4 February 2013

Case Study



    CASE STUDY
Rehmat Bibi, 76, is all alone in this world and selling handmade wood baskets for food. Although the old widow has a daughter, she lives with her husband.
She selling handmade wood baskets in this camp for over 20 years as my three sons married and leaves him alone.
Rehmat bibi said, “I have no family support and did not want to beg,”
She collects the river wood from very remote area of river chanab early in the morning and made them basket and sell them in Multan city. The old lady allows every customer to handmade wood baskets, and charges a lower price than other vendors beside her on the road.
Rehmat Bibi, is also witty and smart and knows about the financial crunch the country faces and the degenerating affairs of governance. There is no regular income. It fluctuates like the price of dollar against rupee. But she does manage to make Rs200 to Rs300, she claimed.
Rehmat Bibi, is one of hundreds of thousands of senior citizens who still work well beyond their capacity to make their ends meet. To date, there has been no official policy ever introduced by the federal government to address the concerns of the old people in the country.
According to DASE Foundation Pakistan working on social protection of the old people who are more than 60 years of age form seven per cent of the total population of the country. They are numbered over 10.2 million almost 52 per cent of this old age population in Pakistan are women while 48 per cent are men. However, most of the senior citizens who are women are widows.
They have no one to look after their health issues, food and other economic needs. Federal government has no major program for the protection of old age people and they also had to beg in the markets or were neglected by their family members.
A Senior Citizens’ Protection Bill is still pending with the government since 2007 in this situation DASE Foundation Pakistan is demanding the government to approve it since the bill has clauses in which government is expected to provide protection (economic, social and health) claimed the official of the non-governmental body.
On the other hand, that till the bill is approved there exists no strong social protection system for elderly people like Rehmat Bibi who are left on the mercy of the unsociable system.
















Economic Empowerment of young women



DASE Foundation Pakistan aims to economic empowerment of young women by skill enhancement and livelihood enhancement. Status of women in Seraiki Wasaib is a complex phenomenon especially within the multi-cultural and, feudal. Feudalism, Fundamentalism, Low Literacy Rate, Low Status of Women, Gender Disparity in Food Distribution, Education, Health and unemployment/, Economy, Restricted Mobility Lack of Control over Resources, Low Level of Awareness of their Civic/ Human Rights, Women are Into Low-Return Economic Activities in Seraiki Wasaib.For better income sources and self sufficiency, Providing of work opportunities for jobless and poor women who are widow, disabled and poverty females group. Due to the shortage economies of people, we want to bring a changes to their corrupted income sources, and we will support them with a modern skills, transfer of technology and a good marketing of their products to become self sufficient and encourage them for an improvement in women economy.

Thursday 24 January 2013

Congratulation EID MILLAD-UL-NABI



Congratulation EID MILAD-UL-NABI
Muslims have traditionally celebrated Eid Miladun Nabi, the birth anniversary of the Holy Prophet (peace be upon him), and the Muslims of Pakistan will join their co-religionists in this celebration with fervor and enthusiasm today. However, in 2013, the anniversary should provide another occasion for evaluating the position in which the country stands, because this Eid Milad is falling just before a general election. The people of Pakistan have to compare the sublime message of the Holy Prophet (pbuh), the fraternity, mercy and peace that he preached, and the violence and mayhem being committed by the militants, claiming to massacre in the name of a religion which preaches peace towards all mankind.