Wednesday 13 February 2013

new article


انتہا پسندی بذات خود کوئی سیاسی تصور یا خیال نہیں اگر آپ مجھ سے کسی معاملے پر اختلاف کرتے ہیں اور ہم دونوں کسی خاص نقطے پر پہنچنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو آپ خیال کریں گے کہ کیسا انتہا پسند آدمی ہے کہ میری بات ہی نہیں سمجھتا ۔لیکن درحقیقت اختلاف رائے انتہا پسندی کا پیمانہ نہیں ۔بانو قدسیہ نے اپنی کسی تحریر میں خواتین کے لباس کے حوالے سے انتہا پسندی کی کچھ رخ پیش کئے وہ کہتی ہیں برقعہ پہننے والی خاتون چادر سے نقاب کرنے والی کو بے پردہ کہتی ہے اور چادر سے نقاب کرنے والی دوپٹہ کرنے والی خاتون کو بے حجاب کہتی ہے اور دوپٹہ کرنے والی پتلون پہننے والی کو بے حیا تصور کرتی ہے آج انہی معاملات کو بنیاد بنا کر مذہبی انتہا پسندی اور بنیاد پرستی بڑھ رہی زرا غور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جو بھی ہم سے مختلف ہو وہ ہمیں غلط دکھائی دیتا ہے بقول مشتاق احمد یوسفی جو ہم سے ایک سال چھوٹا ہے وہ لمڈا کہلائے اور جو ایک برس بڑا ہے اس پر بوڑھے کی پھبتی چست کی جائے۔آج ہم خود کی درست اور دوسروں کو غلط قرار دے کر اختلاف رائے کا راستہ روک رہے ہیں اور دلیل کی راہ چھوڑ کر بندوق کے بل بوتے پر قائل کرنا چاہتے ہیں جس سے انتہا پرست نظریات بڑھتے جا رہے ہیں ۔
پاکستان میں سیاسی ضرورتوں کی خاطر مسلم اشرافیہ کی جانب سے مذ ہب کے مبہم تصور پر استوار شناخت کو بنیاد بنا کر مختلف و متنوع ثقافتی پس منظر کی حامل شناختوں کو باہم ملا کر ایک قوم بنانے کی سعی کی جا رہی ہے جس کی پشت پناہی حکمران طبقہ کر رہا ہے ۔مذہبی ملاؤں کی ریاست کو کنٹرول کرنے کی خواہش اور عسکری فیصلہ سازوں کی من مانیوں کے مابین اختلاط کے بطن سے جنم لینے والی عفریت جسے عرف عام طالبان ،ظالمان ، باطلان ،بے ایمان، حیوان کے القابات سے نوازا جاتا ہے وہ اپنے پیش رووں کی خواہشات کی بزور قوت تکمیل میں مصروف عمل ہیں اس لئے مذہبی راسخ العقیدگی بڑھتی جا رہی ہے اور ان فاشٹ تصورات نے پورے ملک کو جہنم زار بنا دیا ہے ۔
آج مذہبی انتہا پسندی کا یہ کاروبار انتہائی دیدہ دلیری سے ہمارے ملک میں چل رہا ہے ۔پولیو کے قطرے پلانے پر قتل کر دینا تو کبھی تعلیم حاصل کرنے والے ملالہ کو اس کا نشانہ بنانا تو کبھی ہزارہ کیمونٹی کے لوگوں کو قتل کر دینا ، کبھی فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ تو کبھی بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں تو کبھی کوہستان میں انسانوں کا قتل عام اس غم و اندہ کی فضا میں سانس لینا محال ہوتا جا رہا ہے ۔
وہ مذہب جو انسانیت ، محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیتا ہے نجانے یہ مذہبی انتہا پسند قوتیں کس مذہب کو بنیاد بنا کر یہ مکروہ دھندہ کر رہی ہیں ۔اور حقیقت تو یہ بھی ہے کہ قومی سلامتی کے تمام تر ادارے ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں ۔ آج ایسی قوتوں کی وجہ سے ہمارا ملک لاقانونیت کا شکار ہے اور لگتا ہے انتہا پسندی کا یہ جن جسے بوتل سے باہر نکالا گیا ہے جس کا پیٹ کئی معصوموں کی جان لے کر بھی نہیں بھرنے والا اور شائد یہ پورے ملک کو ہی نگل کر ہی دم لے گا ۔پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی وبا ستاروں کی پراسرار حرکت ، کائناتی لہروں یا دیگر غیر مرئی ذرائع سے نہیں پھیلی ۔بلکہ ایک منظم سازش کے تحت ہمارے اپنے ہی جرنیلوں نے اسے دوام بخشی ۔
ضیاء دور میں لگنے والا یہ پودا آج ایک تناور درخت کی صورت اختیار کر چکا ہے اور اسکی آبیاری کرنے میں تمام ریاستی اداروں نے بھر پور کردار ادا کیا ہے ۔مذہبی انتہا پسندی جو ایک عرصہ سے حکومت کی ناک کے نیچے پھل پھول رہی ہے آج اس کے شعلوں نے حکومتی خرمن ہی خاکستر کرنا شروع کر دیا ہے ۔جو زہریلے افعی ہم نے پالے تھے اب ان کا زہر ملک کے فکری جسد کو زہر آلودہ کر رہا ہے
اور اس کش مکش میں ملکی ترقی تو متاثر ہوئی ہے ساتھ ساتھ عام شہریوں کا جینا دو بھر ہوگیا ہے حکومت کی طرف سے بیانات کی حد تک تو غیض و غضب خوب نظر آتا ہے لیکن عملا ان انتہا پسندوں کے سامنے یہ غصہ جھاگ بن جاتا ہے ۔مذہبی انتہا پسندی کی جنگ درحقیقت پاکستان کی بقاء کی جنگ ہے جسے پاکستان کو ہر صورت جیتنا ہے کوئی درمیانی راستہ نہ ہے یہ جنگ ہارنے کا مطلب ہے ان انتہا پسندوں کیلئے ایک محفوظ جنت تیار کرنا اور پاکستان کو ان کی آماجگاہ بنانا جہاں آئین و قانون کی کوئی گنجائش نہ ہو اور افراد کا قتل عام کیا جائے ،کاروباری طبقہ کی سرمایہ کاری بند ہوسکے اور بین الااقوامی طور پر ہمارے ملک پاکستان کا نام دہشت کی علامت سمجھا جائے ۔اس آتش بار صورتحال میں عام شہریوں کا خون تو نت بہایا جاتا ہے اب تو ہمارے سیاسی قائدین بھی اس سے محفوظ نہیں گذ شتہ دنوں معروف سیاسی رہنما بشیر بلور بھی اس کی نذر ہوئے ہیں ۔پاکستان کی معاشی شہ رگ (کراچی) کٹتی جا رہی ہے جس کے بناء سانس لینا محال ہے۔اور شیعہ بھائیوں کی خونریزی تعصب کی شدت کو بڑھا رہی ہے ۔اور اس سب پر ہماری خاموشی بھی زہر ناک بے حسی کے مترادف ہے اور آستین میں سانپ پالنے کے برابر ہے
آج ان انتہا پسندوں کے ہاتھ ہر طبقہ فکر کے معصوموں کے خون سے رنگے ہیں اور پاکستانی سماج پر ان انتہاپسندوں کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے ۔آج پاکستان اس انتہا پسندی سے لہولہان ، اشکبار و سوگوار ہے اور ہر طرف انتشار پھیل رہا ہے ۔ محبت ،امن اور بھائی چارے کا دیا بجھتا دکھائی دیتا ہے ۔انتہا پسندی کا ناسور تمام جسم میں سریت کر رہا ہے اگر اس کا بر وقت علاج نہ کیا گیا تو پاکستان معذور ہو سکتا ہے ۔ آج ہمارا معاشر ہ مجموعی طور پر برداشت سے محروم ہوتا جا رہا ہے ہم اختلاف کی خوبصورتی کو سمجھے بغیر ،افہا م و تفہیم سے کام لئے بغیر محض گولی کے بل بوتے پر اختلافات ختم کرنا چاہتے ہیں جس سے انتہا پسند نظریات جنم لے رہے ہیں اور لیتے رہیں گے ۔ہم اپنے پوائنٹ آف ریفرنس پر کھڑے ہوکر دیگر پوائنٹ آف ریفرنسز کو غلط قرار نہیں دے سکتے ۔عجلت پسندی سے کام لینا درست عمل نہیں ہمیں اپنے رویوں کی اصلاح کرنی ہوگی اور قوت برداشت کو تقویت دینا ہوگی ،تضادات اور تنوع کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا ۔خواجہ غلام فرید نے کیا خوب کہا تھا ۔
پیلوں پکیا نی پکیا نی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آچنوں رل یار
کئی بگڑیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کئی ساویاں ،پیلیاں
کئی بھوریاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کئی پھکڑیاں نیلیاں
کئی اودیاں گلنار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کٹویاں رتیاں نی وے
آج اگر تمام سیاسی جماعتیں اور دیگر طبقات انتہا پسندی کو ختم کرنے کیلئے سر جوڑ کر نہ بیٹھی تو پاکستان کا وجود شدید خطرات سے دوچار ہو گا۔ یہ جنگ جو ہم پر مسلط کی گئی ہے صرف اسی صورت جیتی جا سکتی ہے جب پاکستانی ذہن تمام تر التباسات سے آزاد ہو کر پوری یک جوئی کے ساتھ اس میں شریک معرکہ ہوں اور بے حسی چھوڑ کر ایک فعال کردار ادا کریں ۔اور انتہا پسندی کے اس خوف سے چھٹکارے کا یہی واحد راستہ ہے ۔ہمیں اس خوف کو چیلنج کرنا ہے

No comments:

Post a Comment