Wednesday 16 January 2013

Only Democracy



   
جمہوریت یا سراب

آج پاکستان کی طرح تیسری دنیا کا ہر جمہوری ملک الیکشن سے پہلے مخفی یا صریحی خانہ جنگی ، غلط نظام حکومت ، کرپشن، صحت اور تعلیم کی کمی، نااہل انتظامیہ اور بے پناہ عوامی مباحثوں میں مبتلا ہے۔کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان مسائل اور خود مغربی جمہوریت کے درمیان ایک علتی تعلق موجود ہے۔اس کے باوجود ممکنہ حد تک ان مسائل کا حل صرف اور صرف جمہوریت میں ہے۔جمہوریت لوگوں کے ذریعے، خوشحالی، برابری ، شفافیت ، شخصی آزادی اور یکجانیت کیساتھ متساویت کی جانب مائل کرتی ہے۔ اور اس بات کی شہادت کیلئے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔جمہوریت تین بنیادی اصولوں پر محیط ہے ۔
*
آپ کو آزادی سے ووٹ دینے کا حق
*
آپ کو آزادی سے جمہوری دفاتر چلانے کا حق
*
اکثریت کو قانون کے تابع رہ کر حکومت کرنے کا حق
جمہوریت آزادیء اظہار اور لوگوں کو جمہوری عمل کے ساتھ جڑنے کے حق کی ضمانت دیتی ہے اور اسکی کیا وجہ ہے کہ جمہوریت کو کیوں برابری، کارکردگی اور خوشحالی کی ضمانت دینی چاہیے۔اس لئے کہ درحقیقت جمہوریت کا اہم ترین اصول ایک ایسے عمل کو پروان چڑھانا ہے جو آزادی اور خوشحالی کے لئے معاشرے کی رہنمائی کرے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں کچھ غیر جمہوری قوتوں کی وجہ سے جمہوری نظام ،متشکک انتخابات، سیاسی غلامی، نابرابری ، نااہلی اور بے انتہا کرپشن کا شکار رہا ہے ۔لیکن یہ سب کچھ جمہوری اداروں اور جمہوری نظام کے خلاف ایک نہایت منظم شازش کے تحت ہوا ہے اور یہ سازش ان غیر جمہوری طاقتوں نے کی ہے جو پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط و مستحکم ہوتا اور پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے۔
جمہوری نظام کی کمزوری کے اہم محرکات :
*
نااہلی اور کم مدت منصوبہ بندی
*
غیر ذمہ دارانہ رویہ اور سماجی تصادم
*
دوسروں کے معاملات میں مداخلت
*
مجموعیت اور اطاعت
*
کرپشن اور طاقت کا ناجائز استعمال
پاکستان ایک سیاسی اور جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں قیام میں آیالیکن اس کے وجود کو62 برس گذر جانے کے بعد بھی جمہوریت اور جمہوری رویے پروان نہیں چڑھ سکے اور چڑھیں بھی کیسے پندرہ پندرہ برس یا نو نو برس کے متشدد ، بنیاد پرست اور غیر جمہوری دورانیوں کے بعد جب تین یا چار جمہوری سالوں پر بے جاتنقید اور شور وغل شروع ہو جائے تو پھر کیسے جمہوریت پروان چڑھے گی ۔اور ایسا ہی ایک بار پھر ہو رہا ہے۔
ابھی چار سال ہی گذرے ہیں کہ جمہوریت کو درپیش خطرات سر اٹھانے لگے ہیں ۔آج جمہوریت اقتصادی ، سماجی، سیاسی اور بین الااقوامی محاذوں پرکثیر پہلو چیلنجز سے نبرد آزما ہے ۔ پاکستان میں جمہوریت کی بالا دستی کو قائم رکھنے کیلئے ایک دانشمندانہ سوچ کی ضرورت ہے جو ہر شہری کے اندر موجود ہونا لازم ہے ۔تبھی یہ نظام مضبوط ہو سکتا ہے ۔تذبذب کے بادل پاکستان کے جمہوری نظام پر منڈلا رہے ہیں ۔ایک اہم خدشہ متواتر فوجی مداخلت کا ہے جو سیاسی اور جمہوری نظام کو پرورش پانے سے روک سکتا ہے ۔ سیاسی جماعتیں جو کہ جمہوریت کی نرسری ہیں خود ابھی جدید اور جمہوری سطور پر قائم نہیں ۔ موجودہ حالات میں سیاسی لیڈر شپ ایک نا پسندیدہ گروہ بن گیا ہے ۔ایک عام آدمی کا رحجان سیاسی شخصیات سے ناپسندیدگی کی طرف بڑھ رہا ہے لیکن وہ سیاسی شخصیات اور سیاسی اداروں میں تفریق نہیں کر سکتااس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوری اداروں اور نظام کے برقرار رکھنے کیلئے عام لوگوں میں شعور اجاگر کیا جائے۔
جمہوریت کے استحکام کیلئے آزاد میڈیا اور آزاد عدلیہ نہایت ضروری ہے لیکن ان کے لئے بھی کچھ اقدار اور اخلاقیات کی پاسداری کرنا اور جمہوری اداروں کی عزت اور احترام بہت ضروری ہے۔بدقسمتی سے میڈیا برائے نام اخلاقی اور قانونی حدود کا خیال رکھتا ہے ۔سوداگری یا تجارت پرستی کبھی کبھار اسے برائے نام صحافت کیلئے ورغلا دیتی ہے یا مجبور کر دیتی ہے جب میڈیا عوامی اور قومی مفاد ایک طرف رکھ دیتا ہے اور عوامی رائے قائم کرنے کیلئے حقائق کو مسخ کر کے عوام میں پیش کرتا ہے معاشرے میں جہاں تعمیری تنقید نے اہم اور مثبت کردار ادا کرنا ہوتا ہے ۔ وہاں میڈیا کو درست حقائق بیان کرنے ہوتے ہیں جو کہ عموماْ میڈیا نہیں کرتا اور نتیجہ کے طور پر عوام کے اندر نا مناسب اورنا واجب تنقید اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور عوام غصے میں قانون کی پرواہ کئے بغیر جمہوریت کی بانگ درا آلاپنے لگتی ہے جبکہ جمہوریت کا ایک اہم پہلو قانون کی بالادستی کو قائم کرنا بھی ہے شائد محض سروں کی گنتی کو ہی جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے اور اس کا ذمہ دار میڈیا ہے ۔جمہوریت محض سروں کی گنتی یا انتخاباتی مشق ہی نہیں بلکہ یہ کچھ اصول و ضوابط کا مجموعہ ہے جسکی بنیاد آزادی، انسانی تحفظ، برابری اور برداشت کے تصورات پر مبنی ہے ۔انتخابات جمہوریت کا ایک منشور ہے اور اس انتخابی عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ جاگیردارانہ سوچ اور برادریوں کا ناجائز اثر و رسوخ ہے جو کہ لوگوں کے حق آزادی کو سلب کرنے کے برابر ہے ۔
عوام کو آزادی سے جمہوری عمل میں شمولیت سے روک دیا گیا ہے ہمارے ملک میں آج بھی جاگیر دارانہ نظام کسی نہ کسی شکل میں غالب ہے اور عوام ایک محکوم و مغلوب رعایا کی طرح ان کے حد اختیار میں زندگیاں گذارنے پر مجبور ہیں ۔اور وہ اس سیاسی اور جمہوری عمل میں کبھی متحرک شرکت دار نہیں بن سکتے ۔

چھوٹے صوبے وفاق پر اپنا اعتماد کھو چکے ہیں ۔فوج شاہی اپنے مطالبات اور مفادات کو تر ویج دے رہی ہے اور وہ حقیقی قانونی و آئینی حقوق سے انکاری ہے۔اگرچہ موجودہ جمہوری حکومت نے بلوچوں سے غیر مشروط معافی بھی مانگی لیکن کوئی حقیقی اقدامات نہ کئے گئے بلکہ بلوچستان میں متشدد اورتکلیف دہ عمل جاری رہا جس سے حالات سنگین ہوتے گئے اور آج بلوچستان کے الگ ہونے کی باتیں ہونے لگی ہیں اس سب کی ذمہ دار جمہوری حکومت ہے جو اپنے ماتحت اداروں کو تابع نہیں رکھ سکتی اور نتیجے میں ان اداروں کی طاقت کا بے لگام استعمال قومی انتشار بڑھاتا ہے اور اسکی گندگی پھر جمہوری حکومت پر گرتی ہے ۔
سیاسی جماعتیں جمہوریت کیلئے ٹھوس بنیادیں فراہم کرنے اور پارلیمنٹ کو عظیم ادارہ بنانے کیلئے جمہوریت کے بنیادی ادارے ہیں ۔اس لئے سیاسی جماعتوں کی دوبارہ منظم ہونے اور جماعت کو جمہوری سطور پر لانا ہوگا اور انہیں عوامی اور مقامی طور پر جماعتی تنظیموں کی جڑوں کو نچلی سطح پر مضبوط کرنا ہوگا۔اور اسی سطح پر عوامی رابطہ کاری کیلئے اور سہولیات فراہم کرنے کیلئے رابطہ کاری دفاتر قائم کرنے ہونگے ۔میں یقین رکھتا ہوں کہ صرف سیاسی جماعتیں ہی سیاسی عمل میں عوام کی بھرپور شمولیت کو یقینی بنا سکتی ہیں اور جمہوری اقدار کو لوگوں کے دلوں پر نقش کر سکتی ہیں ۔پاکستان میں جمہوری عمل کی مضبوطی کیلئے سیاسی عمل میں بڑے پیمانے پر لوگوں کی رضا کارانہ شمولیت ایک ٹھوس بنیاد بن سکتی ہے ۔
پارلیمنٹ ایک عوام کا منتخب کردہ ادارہ ہے جو براہ راست عوام کو جوابدہ ہے اور کئی دیگر طاقت ور اداروں سے جواب طلب ہے ۔عوام تو اپنے حقوق کیلئے پارلیمنٹ سے جواب طلب کر رہی ہے لیکن پارلیمنٹ اپنے تابع اداروں سے جواب طلبی میں مصلحت اور سست روی کا شکار ہے جسکی وجہ ہم سب جانتے ہیں ۔
ایگزیکٹو کو ہر حال قابل احتساب ہونا چاہیے اور تمام فیصلے پارلیمنٹ کو ہی کرنے چاہیے یہ جمہوریت کو تقویت دے گا ۔عدلیہ ریاست کا نمایاں اور اہم ترین ستون ہے ۔ایک آزاد ، اہل اور کار گذار عدلیہ ہی سوسائٹی میں سماجی انصاف کو یقینی بنا سکتی ہے عدلیہ ستم زدہ اور ناراض شہریوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے تاکہ وہ اپنی شکایات کے حق کو استعمال کر سکیں ۔اگر لوگ تلافی کیلئے قانونی راستہ اختیار کریں تو غیر قانونی مہم جوئی کے امکان کم ہوتے ہیں ۔اس لئے آزاد عدلیہ مضبوط جمہوریت کی چابی ہے ۔اس لئے عدلیہ کو چاہیے کہ وہ جمہوری اداروں اور جمہوری نظام کے استحکام کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کر ے کیونکہ اسی سے عدلیہ اور قانون کی بالادستی قائم ہو سکے گی ۔
جمہوریت کے استحکام کیلئے سیاسی کارکنان کو اچھی روایات قائم کرنی چاہیے۔ طاقت کی پیاس ، عدم برداشت اور کرپشن نے پاکستان کی سیاست کو طاعون زدہ بنا دیا ہے ۔اب وقت آگیا ہے کہ پرانے رواجوں کو بدلا جائے اور نئی جمہوری روایات قائم کی جائیں ۔
جمہوری نظام کیلئے سیاسی جماعتوں کو اپنے ڈھانچوں میں ترامیم کی اشد ضرورت ہے ۔اس پر کوئی دوسری رائے نہیں کہ جمہوریت پاکستان کیلئے بدیہی شرط اور نہایت لازم ہے اگر ہم بین الااقوامی حلقے میں پاکستان کی عزت چاہتے ہیں ۔لیکن گذشتہ 62 برس میں اس نے
اندوہ گیں توصیف پیش کی ہے اور موجودہ حالات کے خدشات اس منظر کو اور بد تر بنا رہے ہیں ۔لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس پیچیدہ صورتحال کو بدلنے کیلئے بہتری کا کوئی دروازہ نہیں ۔تاریخ ثابت کرتی ہے جو قومیں بقاء کی آرزو رکھتی ہیں انہیں زندگی میں کئی کٹھن مراحل سے گذرنا پڑتا ہے لیکن یہ سود مند تشہیر اسوقت بہروپ معلوم ہوتی ہے جب منظر عام پر کوئی تبدیلی نہ آئے اور بات محض نعروں تک رہ جائے۔ ہمارے پاس ان کوہ پیکر مسائل سے نبردآزما ہونے کیلئے ہمت اور جذبہ موجود ہے بس ہمیں اتحاد، یقین ،نظم اور راہنمائی کی ضرورت ہے ۔ موجودہ حالات تقاضا کرتے ہیں کہ ملک میں موجود تمام جمہوری طاقتیں اجتماعی سوچ کے ساتھ کوئی ٹھوس اقدامات کریں ۔اور شائد یہی وقت ہے کہ غیر جانبدارانہ طور پر جمہوریت اور سیاسی نظام کی بقاء کیلئے عوامی آواز کو سامنے لایا جائے ۔
تحریر: ذیشان شہزاد
Email: dasepakistan@yahoo.com

No comments:

Post a Comment