Friday 4 January 2013

Tribute to Salman Taseer











کیا خبر کون مجھے مار دے کافر کہہ کر
اب تو اس شہر کے ہر شخص سے ڈرلگتا ہے



ڈر اور خوف انسان کی فطرت میں ہے ۔انسان نے جب آنکھ کھولی تو اپنے ارد گرد آدم خور درندوں کو پایا ۔اور وہ اکیلا آدم ان درندوں سے خود کو محفوظ رکھنے کیلئے کئی تدبیریں سوچتا رہا اور اس طرح اس نے اپنے ہی جیسے انسانوں کو ڈوھونڈنا شرو ع کردیابہت تگ و دو کے بعد اسے اپنے جیسی کوئی مخلوق ملی تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور اس طرح اس آدم ذات نے ایک قبیلے یا سوسائٹی کی بنیاد رکھی جس میں ایک فرد کی ضرورتیں دوسرے فرد سے جڑی تھیں اور وہ انسان ایک دوسرے کو عزت،محبت اور تحفظ فراہم کرتے تھے ۔ایک قبیلہ یا سو سائٹی بنا لینے کے بعد انسان نے خود کو انتہائی محفوظ محسوس کیا اور اسی احساس کے باعث ان قبیلوں اور سوسائٹیوں کا دائرہ کار بھی بڑھتا گیا ۔
لیکن آج کا انسان پھر خوفزدہ ہے اور خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہا ہے لیکن اب خوف آدم خور درندوں کا نہیں بلکہ اپنے ہی انسانوں کا ہے جو اپنی انتہا پسند نظریات اور مذہبی جنونیت کی وجہ کسی بھی طرح سے آدم خور درندوں سے کم نہیں ۔ اور اس پر ظلم تو یہ کہ وہ اس درندگی کا انسانوں کی سوسائٹیوں میں کھلے عام مظاہرہ کرتے پھر رہے ہیں اور ہم بے بس، لاچار اور مجبور انسان خوف کی خاموش تصویر بنتے جا رہے ہیں۔
گذشتہ دنوں گورنر سلمان تا ثیرکے ہونے والے بہیمانہ قتل نے جہاں ماحول کو سوگوار کیا ہے وہی کچھ سوال بھی چھوڑے ہیں ؟ جن کا جواب شائد گردشِ حالات اور سیاسی بیانات کی نذر ہو جائے گا۔
1927سے لیکر 1986 تک توہین رسالت کے صرف سات کیس سامنے آئے لیکن ضیا الحق کے دور میں ہونے والے ترامیم 295B اور 295C کے بعد 1986 سے اب تک 1058 مقدمات درج ہو چکے ہیں جن میں 60% غیر مسلم اور 40% مسلمان شامل ہے۔
بلاِ سفیمی لاء کی بھینٹ چڑھنے والوں میں اکثریت معصوم بے گناہ غیر مسلموں کی ہے ۔
کبھی 84 سالہ بوڑھے عیسائی والٹر فضل خان کے زمین سستے داموں فروخت نی کرنے کے جرم میں پھسایا جاتا ہے تو کبھی گوجرہ میں انسانوں کو زندہ جلایا جاتا ہے۔۔۔۔۔اپریل 2009 میں چار احمدی طالب علم بچے بھی اس قانون کی نذر ہو چکے ہیں ۔۔۔۔کوٹری سٹی کا رہائشی 29 سالہ محنت کش ستار مسیح بھی لقمہ اجل بن چکا ہے۔ ۔۔۔۔۔کبھی بچوں کی لڑائی مذہبی لڑائی میں بدل جاتی ہے تو سلامت مسیح چار عیسائی لوگوں سمیت اس قانون کا نشانہ بنتا ہے۔۔۔۔کبھی 55 سالہ مستاق ظفر کو اس جرم کے الزام میں قتل کر دیا جاتا ہے تو کبھی 35 سالہ نسیم بی بی پولیس کے گینگ ریپ کے بعد اس قانون کا شکار بنائی جاتی ہے اوراسکا ٹرائل شروع ہونے سے پہلے حوالات میں ہی قتل کر دیا جاتا ہے ۔اسی طرح 20 اور معصوم اور بے گناہ لوگوں کو ان قوانین کے الزام میں عدالتی کاروائی کے بجائے قتل کردیا گیا۔ اور اب ایک اور غیر مسلم غریب بھٹہ مزدور آسیہ بی بی کو اس کا نشانہ بنایا گیا ہے۔اور جب انسان دوست گورنر سلمان تاثیر نے معصوم آسیہ بی بی کی ہمدردی میں حق بات کہی اوراس قانون کو کالا قانون کہا تو اسے بھی توہینِ رسالت کا مجرم قرار دے کر قتل کر دیاگیا۔اتنے سارے بے گناہ انسانوں کو نگل جانے والاقانون کالا ہے یا سفید اس کا فیصلہ آپ نے کرنا ہے
وہ نبی ﷺ جس نے پتھر کھا کر لوگوں کو دعائیں دی کوڑے کا ڈھیر پھینکے والی بوڑھیا کی تیمہ دارہ کی آج اس کی خاطر ہم لوگوں کو قتل کر رہے ہیں جو سراسر اسکی تعلیمات کے منافی ہے میرے نقطہ نظر سے توہین رسات کا مرتکب گورنر نہیں بلکہ وہ قادری ہے ۔کیونکہ اس نے ایسا عمل کیا ہے جو رسول پاک کے خدا کی نظر میں نہایت ناپسندیدہ فعل ہے۔
مذہبی سیاسی قوتیں جو اپنی پروہت کی دوکان چمکانے کیلئے پہلے ہی تیار بیٹھے تھیں اس موقعہ سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور معصوم لوگوں کو گمراہ کرکے ایسے اندھاروں میں دھکیل دیا جہاں محبت، امن اور تحفظ کی کرن ایک خواب بن کر رہ گئی۔وہ خود کو ایک مثبت متبادل کے طور پر پیش کرنے لگے جن کے پاس مفادپرستی اور انتہا پسندی کے علاوہ محنت کش طبقے اور عوام کیلئے کوئی معاشی و معاشرتی ایجنڈا نہیں۔
قرآن پاک کے پارہ نمبر 5 سورۃ نمبر 4 سورۃ النسا آیت نمبر 93 میں واضح ارشاد ہے۔
اور جو انسان ایک مومن کو ارادتاْ نیت کرکے قتل کرے تو اُس گناہ کی سزا جہنم ہے اور وہ ہمیشہ اس میں رہے گا ،اللہ کا غضب اس پر ہوگا اور اس پر اللہ کی لعنت ہو گی اور اللہ نے اس قاتل کیلئے ایک عظیم عذاب تیار کیا ہوگا۔
اس کے علاوہ اسلام میں قتل کو پانچواں عظیم گناہ قراردیا گیا ہے اور ہمارے اس معاشرے میں اس جرم میں مرتکب ایک شخص کے استقبال میں سلامی پیش کی جاتی ہے اور پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں۔خدا اس پر لعنت بھیج رہا ہے اور ہم شاباش دے رہے ہیں ۔گورنر کو تو گستاخِ رسول کہہ کر قتل کر دیا گیا اور یہ جو اتنے سارے گستاخِ خدا ہیں ان کو کیا سزا دی جائے۔
قرآنِ پاک میں ایک اور جگہ پارہ نمبر 6 سورۃ نمبر5 سورۃ المائدہ آیت نمبر32 میں ارشاد فرمایا ہے
جس نے ایک انسان کا قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا

جتنا والہانہ استقبال ہم ایک قاتل کا کر رہے ہیں مستقبل میں ہمارے بچے ڈاکڑ،انجینئر اور استاد نہیں بلکہ قاتل بننا پسند کریں گے یہ ہے ہمارا مستقبل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ہر باشعور،پڑھا لکھا اور دانشور اس ملک کو چھورنا چاہتا ہے ۔کیا اپنے بچوں کو ان انتہا پسندوں کے حوالے کرنا درست ہے یقیناًنہیں ۔بے شک ترقی پسند طبقہ کمزور ہے اور تقسیم کا شکار ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ اس شدت پسندی کے خلاف یہ طبقہ ضرور منظم ہو گا۔کیونکہ یہی طبقہ انتہا پسندی کے اندھاروں میں ایک مشعل بن سکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment